کوڑے میں پڑا ایک اور بچہ وہی سسکیاں، وہی چیخیں، اور وہی انتظار لے کر اپنی ماں کو پکار رہا ہے

 


کوڑے میں پڑا ایک اور بچہ

وہی سسکیاں، وہی چیخیں، اور وہی انتظار لے کر

اپنی ماں کو پکار رہا ہے:


"ماں کے نام دوسرا خط"


(ناجائز بچے کا دل سے لکھا ایک اور خط)


ماں...

تمہیں میری وہ پہلی چیخ یاد ہے؟

جو کوڑے کی بدبو، کچرے کی مکھیاں

اور کتوں کے بھونکنے میں دب کر مر گئی تھی؟

میں رویا تھا ماں...

پر تم پاس نہ تھیں

تم وہ ماں تھی

جو مجھے دنیا میں لائی

مگر دنیا کے حوالے کر کے خود کو بچا لیا۔


ماں!

تمہیں خبر ہے

میں نے پہلا لمس کس کا محسوس کیا؟

نرم چادر یا مامتا کی چھاؤں نہیں —

بلکہ گندی پلاسٹک، زنگ آلود ٹین،

اور کچرے کے اندر سے جھانکتی بھوک!


مجھے چھاؤں چاہیے تھی

تمہاری بانہوں کی

لیکن مجھے سایہ ملا...

کتے کی چاٹتی زبان ،

اور آوارہ لوگوں کی ٹھوکریں۔


ماں!

جب میں ڈرتا ہوں

تو اپنی بانہیں اپنے گرد لپیٹ لیتا ہوں

جیسے تم لپیٹتی،

اگر تم ماں ہوتیں... 

صرف تخلیق کار نہیں۔


مجھے بھی ایک بستر چاہیے تھا

جو تمہاری گود ہوتا

جہاں میں بے خوف سوتا

جہاں دودھ کی مہک آتی

جہاں ہر سانس میں ایک دعا ہوتی۔


پر تم چلی گئیں

میری پکار کو گناہ سمجھ کر

میری سانس کو رسوائی کہہ کر

اور مجھے...

بس ایک بدنام یاد کی طرح کچرے میں چھوڑ گئیں۔


ماں...

تمہارے پاس صرف ایک لاش نہیں

تمہارا ایک جیتا جاگتا جگر تھا

تمہارا بیٹا تھا — میں!

جسے تم نے زندہ مار دیا۔


تمہیں بتاؤں ماں؟

میں نے ہر رات "ماں" پکارنے کی کوشش کی

پر ہونٹ کانپ گئے

گلا رُک گیا

اور آنکھوں کے آنسو ہونٹوں کو بہا کر بس اتنا بولتے رہے:

"تم اس لفظ کے لائق نہیں!"


آخری التجا

ماں...

اگر کبھی پھر زندگی میں

ایسا لمحہ آئے

تو یا تو مجھے خود مار دینا

یا دنیا سے لڑ کر ماں بن جانا —

لیکن مجھے کچرے میں مت چھوڑنا!

وہاں روتے روتے مرنا بہت دردناک ہوتا ہے ماں!


آئی مس یو ماں...

اور نہ جانے کیوں

پھر بھی صرف تم ہی یاد آتی ہو۔

😭


 فقط  ایک گمشدہ بچہ

جسے تم نے جنم دیا، پر قبول نہ کیا۔

😿😰😭


حلیمہ سعدیہ  ✍️

Post a Comment

Thanks for coming in Daily Urdu news

Previous Post Next Post